خدارا اپنے آپ کو ہلاکت سے بچاؤ!


          خدارا اپنے آپ کو ہلاکت بچاؤ

بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ ہفتے والے دن دریا سے مچھلیاں
نہیں پکڑنےہیں مگر انہوں نے بہترین تدبیر  کرنے والے  رب کے ساتھ جب تدبیر آزمائی کی تو نشانِ عبرت بن گئے
 ہمیں بحیثیتِ مسلمان یہ معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے مگر جھوٹ بولنا اب ہماری عادت بن چکی ہے اور ہم اس حد تک کو پہنچ گئے کہ اب جھوٹ بولنا ہمیں گناہ ہی نظر نہیں آتا،ویسے تو ہم جھوٹ بولتے رہتے ہیں مگر اس جھوٹ سے جس سے ہم معاشرے میں بدنام ہو سکتے ہیں اور جھوٹا تصور کیے جاسکتے ہیں بچ بھی گئے تو اپنے آپ پر غرور کرتے ہیں
 ہمارا لمحہ لمحہ جھوٹ پر مبنی ہے مگر ہم اپنے آپ کو سچے کہنے سے تھکتے نہیں، ہم سچا بننے کی بجائے لوگوں کو باور کرا رہے ہوتے ہیں کہ ہم سچے ہیں، مگر ہم  سچ کے صرف دعویدار ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ صدیاں بیت چکی ہیں صدق کو ہم سے رخصت ہوتے ہوئے،
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے ان غیور لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ فحاشی و عریانی اور جھوٹ کا عام ہونا کفار کی تدبیرہے،کفار کی پلاننگ ہے ہاں ہوگا!
 مگر جب یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی آپ اپنے آپ کو بچا نہیں پا رہے بلکہ خود اس کے پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں تو مجھے آپ پر بے حد افسوس ہے، آپ کو اللہ تعالی نے علم دی ہے جانکاری دی ہے، سمجھ دی ہےاوراگراس کے باوجود آپ اپنے آپ کو بچا نہیں پا رہے تو قیامت کے دن اگر اللہ نے آپ سے یہ سوال پوچھا کہ میں نے آپ کو علم دیا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟ تو کیا جواب دے گا،
 کائنات کی سب سے بڑی سچائی تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہر فرمان صادق ہے آپ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا مذاق میں بھی جھوٹ سے باز آؤ مگر افسوس کہ امتی جھوٹ کی ایک لمبی فہرست تیار کرکے اور آخر میں اپریل فول لکھ کر اپنے دوست احباب سے داد وصول کر رہا ہوتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ آپ بھی اپنے دوستوں سے داد وصول کریں،ہم بھی کمال کرتے ہیں
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹ ہلا کت کی طرف لے جاتا ہے مگر ہم تو سو جھوٹ بول کر ہلاک ہو جاتے ہیں پھر ہلاکت میں ہزار جھوٹ بول کر فتح ونصرت کی کوشش کرتے ہیں، ہم مسجد کی گیٹ تک اللہ کو ناراض کرتے ہوئےجاتے ہیں اور مسجد میں  ایک روایتی جملہ" یا اللہ ہم سے راضی ہوجا" کہہ کر باہر آ جاتے ہیں اور اپنے سچے ساتھی جھوٹ کے ساتھ بقیہ دن بسر کرتے ہیں
 آپ مان جائیں یا نہیں مگر یہ سچ ہے کہ گناہوں میں ہم اتنے گر چکے ہیں  کہ ہم اکثر جھوٹے پلاننگ اور گناہ کے کاموں کا ارادہ نماز ہی میں کرتے ہیں، ہمیں نماز ہی میں یاد آتا ہے کہ فلاں کے ساتھ یہ جھوٹ بولناہے اور پھر کمالِ ایمان کا دعوا  بھی کرتے ہیں
ہم بڑے پرجوش انداز میں کہتے ہیں کہ فرمانِ محبوبِ خدا ہے کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت رکھتا ہے اس کا حساب اسی کے ساتھ ہوگا مگر ہمیں اندازِمسلمانی اپناتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ہمیں وضحِ  مسلمانی پرانی نظر آتی ہے
میں نے شروع میں کہاکہ بنی اسرائیل نے اللہ کے ساتھ ایک دفعہ تدبیر آزمائی کی، نشانِ عبرت بن گئے،مگر ہم اللہ کے ساتھ کتنی تدبیر آزمائیاں کر رہے ہیں،کبھی اپریل فول کے نام پر تو کبھی  ویلنٹائن ڈے کے نام پر تو کبھی کس بہانے پر۔ ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ ہم اتنے تدبیر آزمائیاں کر رہے ہیں اور ہمیں رب پھر بھی معاف کر رہے ہیں اللہ تعالی اپنے محبوب کے صدقے ہمیں ایک ہی وقت میں تباہ تو نہیں کریگا مگر ہم بھی صحیح مانوں میں ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ بھی بہترین تدبیر والے رب کے احسانات سے۔
آرٹیکل لمبی ہوگئی مزید دیکھیں آنے والے آرٹیکل میں "ہمیں پھر بھی اللہ سے شکوے" مگر کیوں؟
از جانب جمشید علی لاشاری

Comments

Popular posts from this blog

دوستی کے اسلوب (کڑوا مگر سچ)

Finally wait is over

غفلتِ زندگی کے مزے